اپاہج موسموں کا درد

منصور آفاق

Publishing date: 09 August 2024

Published in: JANG

قبر کی خاک میں مرہم کا سکوں ہے، منصور لاپتہ پیارا کسی کا ہو، خدا نہ کرے۔ کوئی شخص جب عرصہ دراز سےلاپتہ ہو تو قرابت دار انتظار کی قیامت میں گھِر جاتے ہیں، انکی انتظار بھری آنکھیں اس وقت تک آنسووں سے بھری رہتی ہے جب تک کوئی سراغ نہیں ملتا۔ خیبر پختونخو کے ایک ہزار تین سو چھتیس خاندان اسی تکلیف میں ہیں۔ بلوچستان کے پانچ سو اٹھائیس گھرانوں میں یہی محشر بپا ہے۔ اس فہرست میں ایسے بھی ہیں جنہیں کھوئے ہوئے بیس بیس سال ہو چکے ہیں۔ پیاروں کی واپسی کے منتظر آنکھیں راہ تکتے تکتے پتھرا گئی ہیں مگر شمع ِ انتظار بجھ ہی نہیں رہی۔ اہل تحقیق و تفتیش کے خیال میں گمشدیوں کی کئی اقسام ہیں۔ کچھ لوگ حادثوں کا شکار ہو ئے اور دفنا دئیے گئے۔ کچھ بیرون ِ ملک رہ رہے ہیں اور کسی خوف کے سبب اپنی موجودگی کو ظاہر نہیں کر رہے۔ کچھ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ خاص طور پر افغانستان میں دہشت گردی میں ہلاک ہونے والوں کا وہاں کی حکومت کے پاس مکمل ڈیٹا موجود نہیں۔ کچھ لوگ غیر ملکی ایجنسیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے اور ان کی لاشیں تک غائب کر دی گئیں کہ الزام ہماری ایجنسیوں پر آئے۔ کچھ لوگ افغانستان، انڈیا اور یورپ میں موجود ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ لوگ سرکاری ایجنسیوں نے اٹھائے ہوں مگر بقول ان کے اِس وقت ان کے پاس کوئی لاپتہ فرد موجود نہیں۔ یہ وہ بات ہے جس کیلئے برسوں سے گمشدہ لوگوں کے لواحقین احتجاج کرتے چلے آ رہے ہیں مگر کوئی امید بر نہیں آ رہی۔ مسئلہ یہ ہے کہ بلوچستان میں غیر ملکی ایجنٹ بڑی تعداد میں موجود بھی ہیں اور بلوچوں کو ورغلانے کیلئے لمبی چوڑی سرمایہ کاری بھی کرتے رہتے ہیں۔ ان ورغلائے ہوئوں پر گرفت کرنا ہمارے اداروں کی مجبوری ہے مگر میں نے دیکھا گیا کہ ادارے جنہیں گرفتار کرتے ہیں کچھ عرصہ بعد کسی عدالت میں ضرور دکھائی دے جاتے ہیں، چاہے وہ فوجی عدالت کیوں نہ ہو۔ پی ٹی آئی کے ہزاروں لوگ اٹھائے گئے مگر کوئی گم نہیں ہوا۔ بہر حال لاپتہ افراد کا معاملہ ریاست کیلئے بڑے عرصہ سے ایک دردِ سر سے کم نہیں تھا۔ ریاست نے اس کے متعلق ایک غیر معمولی اور تاریخ ساز فیصلہ کیا ہے۔ وہ لاپتہ افراد جنہیں پانچ سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ ان کےلواحقین کے دکھ میں شریک ہونے کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ ہر لاپتہ فرد کے خاندان کو پچاس لاکھ روپے کی گرانٹ دی جائے تاکہ وہ معاشی طور پر سنبھل سکیں۔ اس فیصلے سے پہلی بار محسوس ہوا ہے کہ ریاست ماں کے جیسی ہو سکتی ہے۔ یہ ویلفیئر کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ ریاست متاثرہ خاندانوں کے غم میں واقعی شریک ہوئی ہے۔ اگرچہ ہمیشہ لاپتہ ہونے کا الزام ریاست پر لگا یا گیا مگر ریاست نے تردید کے سوا کچھ نہیں کیا۔ یہ پہلی بار کسی نے ان کیلئے کچھ کیا ہے وگرنہ ان خاندانوں کے بچے بچیاں اور بوڑھے بوڑھیاں برسوں سپریم کورٹ سامنے آکر بیٹھتے رہے۔ پاکستانی آئین کے مطابق فرد اگر تکلیف میں ہے تو ریاست مدد کی پابند ہے مگر ہمیشہ آئین کی یہ شق کی پامال رہی۔ حکومتوں نے اپنی آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھی لی، لواحقین کے آنسووں کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ یہ وجہ ریاست کو نقصان پہنچاتی رہی۔ دشمنوں کے اس پروپیگنڈےکو فروغ ملا کہ گمشدگیوں میں ریاست خود ملوث ہے۔ سب سے زیادہ یہ آواز بلوچستان کے لوگوں نے اٹھائی اور بار بار کہا کہ بلوچ نہ صرف ایک قوم ہیں بلکہ بلوچ انسان بھی ہیں اور انسانیت کے ناطے پورے پاکستان کو چاہیے کہ وہ بلوچ قوم کا ساتھ دے اور گمشدہ افراد کی بازیابی میں اپنا کردار ادا کرے۔ پاکستان کے بہت سے دھڑکتے دلوں نے ان کا ساتھ دیا ان کیلئے آواز بلند کی۔ چیخ چیخ کر کہا کہ یہ عمل نہ تو جمہوریت میں جائز ہے اور نہ کسی مذہب میں۔ ریاست بھی انہیں بازیاب کرانے کی کوشش کرتی رہی مگر کامیاب نہ ہو سکی۔ گمشدہ افراد صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں، پوری دنیا میں لوگ لاپتہ ہوتے رہتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی، جہاں ہر شخص کا ایک ایک لمحہ ریکارڈ ہوتا ہے وہاں بھی مسنگ پرسن کی فہرستیں کافی طویل ہیں۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں لاپتہ افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ہندوستان میں لاپتہ افراد کے تشویشناک اعداد و شمار ہیں، وہاں ہر گھنٹے میں اوسطاً 88 افراد لاپتہ ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ لاپتہ افراد ہیں جن کی گمشدگی کی اطلاع قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دی گئی ہے۔ برطانیہ میں تقریباً ایک لاکھ اسی ہزار مسنگ پرسن ہیں۔ کولمبیا میں ہزاروں مسنگ پرسن ہیں۔ میکسیکو میں بھی ان کی تعداد امریکہ سے کم نہیں۔ نائیجریا میں ایک بہت بڑی تعداد میں لوگ لاپتہ ہیں۔ مگر ان ممالک کے لوگوں نے ریاست پرکبھی الزام نہیں لگا کہ اس نے اپنے ہی بچوں کو اغوا کر لیا ہے۔ یہ الزام صرف پاکستان میں لگایا جاتا رہا حالانکہ دہشت گردی جیسے خوفناک مقدمات میں ملوث افراد کے خلاف بھی عدالتوں میں کیس چلے۔ ایسے میں مسنگ پرسن کا الزام میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ بہر حال مسنگ پرسنز کی فیملیز کے غم کے ساتھ ریاست کی یہ شرکت قابل تحسین ہے۔

COMMENTS

Wordpress (0)
Disqus ( )