مقبوضہ جموں و کشمیر: بھارتی فوج کی موجودگی اور انتخابات پر اثرات
مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوج کی بھاری تعداد میں موجودگی معصوم کشمیریوں کی آزادی پر سنگین سوالات اٹھاتی ہے۔ اس وقت وادی میں تقریباً 8 لاکھ بھارتی فوجی تعینات ہیں، جنہوں نے نظام زندگی کو مفلوج کر رکھا ہے۔ بھارت کے جمہوریت کے دعوے ہمیشہ کھوکھلے ثابت ہوئے ہیں کیونکہ بھارتی افواج نے کشمیری عوام کے تمام جمہوری حقوق کو سلب کر رکھا ہے، انہیں حق رائے دہی سے محروم کر دیا ہے۔
بھارتی فوج جبری اغوا، ماورائے عدالت قتل اور خواتین کے ساتھ زیادتی جیسے سنگین جرائم میں ملوث ہے۔ 2019 میں مودی سرکار نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے کشمیریوں سے ان کا حق خود ارادیت چھین لیا، اور انہیں اپنے حقیقی نمائندوں کے انتخاب سے محروم کر دیا۔
18 ستمبر 2024 کو بندوقوں کے سائے تلے ہونے والے انتخابات کا مقصد صرف عالمی برادری کو دھوکہ دینا ہے۔ وادی میں بھارتی افواج کی موجودگی کے باعث آزادی اظہار، حق رائے دہی اور صحافت جیسے بنیادی حقوق کشمیری عوام کے لیے ایک خواب بن چکے ہیں۔
5 اگست 2019 کے بعد سے لاکھوں غیر مقامی افراد نے زبردستی ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کیے ہیں، جس سے علاقے کی مسلم اکثریتی حیثیت کو خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ مودی سرکار آئندہ انتخابات میں ریاستی مشینری کا استعمال کر کے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
جیل میں بند حریت قیادت نے ان انتخابات کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں نئی دہلی کے غیر قانونی قبضے کو جائز قرار دینے کی کوشش قرار دیا ہے۔ ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق، مقبوضہ وادی میں 2019 کے بعد کی تبدیلیوں کا مقصد علاقے کے انتخابی اور آبادیاتی منظر نامے کو تبدیل کرنا اور کشمیری عوام کو حقیقی سیاسی نمائندگی سے محروم کرنا ہے۔
مودی سرکار ریاستی اداروں کو استعمال کر کے ہر قیمت پر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ لیکن یہ سوال ابھی بھی باقی ہے کہ آخر کب تک مودی سرکار بھارتی افواج کے ذریعے مقبوضہ جموں و کشمیر پر اپنا تسلط قائم رکھ سکے گی؟
