طالبان کے افغانستان میں خواتین کا سکول اور یونیورسٹیاں کھولنے کا مطالبہ

2021 میں طالبان کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد سے اب تک افغان خواتین محض گھروں تک محدد ہو کر رہ گئی ہیں۔
افغانستان میں آزاد فضا میں تعلیم حاصل کرنا اور ان کے بنیادی حقوق ملنا خواتین کے لیے محض ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔

افغان خواتین نے ایک بار پھر متعدد اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ افغان خواتین طلباء کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ہم تقریباً تین سال سے غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلاء ہیں۔ ہمارا خواب ہے کہ ہم اچھی تعلیم حاصل کریں لیکن افغانستان پر قابض طالبان نے ہمیں تعلیم جیسی نعمت سے محروم کر دیا ہے۔

حال ہی میں اقوام متحدہ کی جانب سے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران افغان خواتین کے حقوق بالخصوص ان کی تعلیم کے حق کے تحفظ پر زور دیا گیا۔ افغان طالبان کو دوسرے اسلامی ممالک سے متاثر ہو کر مردوں اور خواتین کے لئے تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کرنے چاہیے۔
افغان طالبان کے موقف کے مطابق؛
” دوسرے ممالک کو اس معاملے میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے”
خواتین پر تعلیمی پابندیوں کے حوالے سے افغانستان دنیا کا واحد ملک بن گیا ہے جہاں 11 سال سے زائد افغان لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ؛
“سکول جانے کی عمر میں 80 فیصد افغان لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں”۔ یونیسف کی رپورٹ کے مطابق بھی ؛
“خواتین کی تعلیم پر پابندی سے 10 لاکھ سے زائد افغان لڑکیاں متاثر ہوئی ہیں”۔

سال 2022 میں افغان طالبان کی جانب سے خواتین کی یونیورسٹیوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ افغانستان کے شہر قندھار میں 10 سال سے زائد عمر کی لڑکیوں کو تعلیم سے روک دیا گیا جو کہ سراسر ظلم ہے۔ لڑکیوں کو سیکنڈری تعلیم سے محروم رکھنے سے افغان معیشت کو گزشتہ 12 ماہ میں 5 سو ملین سے زائد امریکی ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ جیسے ہی افغانستان کا تعلیمی سال شروع ہو رہا ہے، طالبان کی طرف سے اب بھی 10 لاکھ سے زیادہ لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں۔

حال ہی میں افغان طالبان کی جانب سے تعلیمی مراکز میں چھٹی جماعت سے اوپر کی لڑکیوں پر پابندی کی اطلاع سنگین خطرے کی گھنٹی ہے۔
اب سوال یہ بنتا ہے کہ آخر کب تک طالبان، افغان خواتین پر تشدد اور حقوق سلب کرتے رہیں گے؟

COMMENTS

Wordpress (0)
Disqus ( )