Enforced Disappearance vs Enforced Martyrdom

ایجنسیاں کسی کو کیوں اٹھاتی ہیں تو اس کا اتنا ہی سادہ جواب ہے کیونکہ عدالتیں سزا نہیں دیتیں۔ ہمارا معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ ابھی چند ہفتے پہلے گوادر کمپلیکس پر دہشت گردوں نے جدید اسلحے کے ساتھ حملہ کیا۔ جب حملہ آوروں کی شاخت ہوئی تو ان میں سے ایک وہ نکلا جس کی تصویر ماہ رنگ بلوچ اپنے اسلام آباد کے دھرنے میں لے کر بیٹھی ہوئی تھی کہ یہ جبری گم شدہ ہے۔

ہماری فوج اور ادارے تو اپنا کام کر رہے ہیں، ایک ایک دن میں دس دس آپریشن ہورہے ہیں، وہ جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں مگر جو مجرم پکڑے جارہے ہیں ان دہشت گردوں کو عدالتوں سے برطانوی عدالتوں کی طرح فوری اور عبرت ناک سزاؤں کی بجائے آئینی ، قانونی اور انسانی حقوق کے نام پر تحفظ مل رہے ہیں –کیا 9 مئی کو جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہاؤس اور شہداء کی یادگاروں پر جانے والے شاہ دولے کے چوہے تھے ۔ کیا عمران خان کے گھر کے باہر پولیس اور رینجرز پر پٹرول بموں سے حملے کرنے والوں کو علم نہیں تھا کہ وہ کون سا جرم کر رہے ہیں اور اگر ان تمام مجرموں کو عدالتیں سزائیں نہیں دیتیں تو پھر، بی پریکٹیکل، ریاستی اداروں کے پاس دوسرا کون سا طریقہ ہے۔ آئین میں درج کئے ہوئے انسانی حقوق کے عین مطابق جبری گمشدگیاں اس وقت ختم ہو جائیں گی جب سیاسی تحریکیں آئین اور قانون کے دائرے میں آجائیں گی –

COMMENTS

Wordpress (0)
Disqus (0 )