آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد مقبوضہ وادی میں آزادی راۓ پر پابندی
آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد مقبوضہ وادی کشمیر میں صحافت پر مزید سخت پابندیاں عائد ہو چکی ہیں۔ یہ خطہ طویل عرصے سے بھارتی حکومت کے دباؤ کا شکار تھا، مگر اس آرٹیکل کی منسوخی کے بعد حالات بدتر ہو چکے ہیں۔ صحافتی آزادی پر قدغنیں لگائی جا چکی ہیں اور صحافیوں کو پیشہ ورانہ سرگرمیاں سرانجام دینے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
ایک مقامی صحافی کے مطابق، “کشمیر میں نام نہاد بولنے کی آزادی ہے، جو سرکار کے خلاف بولے گا وہ جیل جائے گا”۔ یہ بیان اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ آزادی اظہار کا حق کشمیر میں کچل دیا گیا ہے، اور وہ صحافی جو حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں سخت ترین سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بھارتی حکومت نے آزادیٔ اظہار کو اس حد تک محدود کر دیا ہے کہ صحافیوں کو جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے اور ان پر مختلف سفری پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ سیکورٹی فورسز کی جانب سے ان پر دباؤ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے اور بہت سے صحافی قید میں ہیں۔ انہیں اپنی خبروں کے ذرائع بتانے پر مجبور کیا جاتا ہے اور اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کے بجائے وہ ایجنسیوں کی تفتیش سے بچنے کی تدابیر سوچتے ہیں۔
سید مالک، جو ایک تجربہ کار صحافی اور شیخ عبداللہ کی حکومت کے سابق پریس آفیسر رہ چکے ہیں، کہتے ہیں کہ “جب کشمیر میں کچھ بڑا ہوتا ہے تو ہندوستانی عوام حیران رہ جاتی ہے کیونکہ کسی کو اسے دیکھنے کی اجازت نہیں ہوتی”۔ یہ بیان کشمیر میں صحافتی آزادی کے مکمل خاتمے کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
مقبوضہ وادی میں صحافت کا حال اتنا خراب ہو چکا ہے کہ لوگوں نے اخبار خریدنا بھی ترک کر دیا ہے۔ اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو کشمیر میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی کوئی امید باقی نہیں رہے گی، اور یہاں کے عوام مزید جبر و استبداد کا شکار ہوتے رہیں گے۔
صحافت، جو ایک معاشرے کا آئینہ ہوتی ہے، مقبوضہ کشمیر میں مکمل طور پر خاموش ہو چکی ہے
