اسلام اور پاکستان مخالف ٹی ٹی پی
پاکستان طویل عرصے سے دہشت گردی کی لعنت سے نبرد آزما ہے، جس سے اس کے استحکام، ترقی اور بین الاقوامی تعلقات کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اس لعنت سے نمٹنے کے لیے متعدد کوششوں کے باوجود ملک اب بھی دہشت گردی کی جڑوں کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ پاک فوج اپنے خون کا نذرانہ دے کر شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنا رہی ہے۔
تحریک طالبان پاکستان، نہ صرف اسلام مخالف مسلح کارروائیوں میں شامل ہے بلکہ پاکستان دشمن عناصر کے لئے آ لہ کاری کا کردار بھی ادا کر رہی ہے ۔ اس دہشت گرد تنظیم کا نہ کوئی نظریہ ہے اور نہ ہی کبھی کوئی درست سمت رہی ہے، بلکہ یہ نام نہاد اسلامی جہاد کا استعمال کر کے مسلمان بھائیوں کے قتل و غارت میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہے ۔ جبکہ یہ گروہ اسلام کے بنیادی اصولوں تک سے نا واقف ہے جو ایک جہالت میں ڈوبے ہوئے چند شدت پسند افراد کا ریوڑ ہے جس کی منزل کا تعین پاکستان اور اسلام مخالف قوتیں کر رہی ہیں جو ان کی کم عقلی کا بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔
حال ہی میں اس دہشتگرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے اپنی میڈیا نشریات کا لائحہ عمل جاری کیا ہے جو کہ جہادِ پاکستان جیسے ٹیلیگرام چینلز پر نشر کیا گیا ۔ اگر میڈیا لائحہ عمل کا تجزیہ کیا جائے تو اس کی تحریر کے پیچھے میڈیا ماہرین اور تجربہ کار غیر ملکی پاکستان مخالف اداروں کے ہونے کا ثبوت ملتا ہے، کیونکہ یہ کام ٹی ٹی پی جیسے جاہل اور عقل سے عاری افراد نہیں کر سکتے جن کا کام اسلام دشمن عناصر کی اندھی تقلید کرنا ہے۔ بلکہ یہ ان لوگوں کا کام ہے جو کہ میڈیا اور اس کے معاشرتی نفسیات میں عمل دخل سے بخوبی واقف ہیں۔ ٹی ٹی پی جیسا ایک غیر منظم، میڈیا اور نفسیاتی تکنیکی نکات سے ناواقف گروہ اپنے طور پر اس قسم کا لائحہ عمل یقیناً تیار نہیں کر سکتا۔
ٹی ٹی اے نے ہمیشہ ٹی ٹی پی کو ا پنی بھرپور مدد فراہم کی تاکہ اس کو پاکستان کے ساتھ باہمی تعلقات میں بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کر سکے جس کے بہت سے شواہد بھی موجود ہیں۔جبکہ ٹی ٹی اے کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ انتہا پسندانہ نظریات، تشدد اور دہشت گردانہ سرگرمیاں ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں، علاقائی تعاون کو روکتی ہیں اور سماجی و اقتصادی ترقی کی کوششوں میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے درمیان یہ مضبوط رشتہ وسائل کے تبادلے اور حملوں کی منصوبہ بندی کے ذریعے انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔
کابل حکومت کو پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے ٹی ٹی پی اور اس سے وابستہ تنظیموں کو ایک پراکسی کے طور پر استعمال کرنے کی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ وہ اپنے ملک میں پراکسیوں کو پڑوسیوں کو غیر مستحکم کرنے کی اجازت دے کر کبھی بھی خود کو مستحکم نہیں کر سکتے۔ پاکستان اور افغانستان صرف دو ہمسایہ ممالک نہیں ہیں، بلکہ، سابق افغان رہنما حامد کرزئی نے جیسا کہ ایک دفع کہا کہ دونوں ملک’’جوڑواں بچے‘‘ ہیں۔ ان کی تقدیریں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ ان کی سلامتی، اقتصادی استحکام، اور علاقائی روابط ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ لہٰذا، بیان بازی کو کم کرنے، سیاسی اور سفارتی طور پر دوبارہ کام کرنے، اور ایک پرامن پڑوس کے لیے ایک دوسرے کے خدشات کو دور کرنے کی ضرورت ہے جہاں ان کے لوگ ترقی اور خوشحال ہو سکیں۔
جبکہ اس کے علاوہ ٹی ٹی پی فرقہ وارانہ حملوں، مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان کشیدگی کو ہوا دینے اور پاکستان کی سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے میں بھی ملوث رہی ہے۔ ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے خطرات کے جواب میں، پاکستانی حکومت اور سیکورٹی فورسز نے تنظیم کو ختم کرنے کے لیے دہشت گردی کے خلاف وسیع آپریشن شروع کیے ہیں جس میں بہت سے پاک فوج کے جوانوں اور افسران نے جان کا نذرانہ پیش کیا۔
اور اس بات کا ثبوت ٹی ٹی پی کے تیار کردہ اس لائحہ عمل میں ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے جہاں اس میں کہیں بھی شریعت کے نفاذ کا ذکر موجود نہیں ہے، بلکہ یہ عوام اور فوج، بالخصوص پشتونوں اور بلوچوں، کے درمیان دراڑ پیدا کرنے کے ارد گرد گھومتا ہے۔اسی لائحہ عمل کا استعمال بلوچ علیحدگی پسند گروہوں اور پی ٹی ایم کے بیانیے میں بھی نظر آتا ہے جو طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر کے ریاست مخالف گروہوں کو سپورٹ فراہم کرتے ہیں۔ اس تقسیم کی ایک مثال ہمیں ماہ رنگ بلوچ کی شکل میں نظر آتی ہے جو کہ ایک خاص کمیونٹی کے انٹرسٹ کےلئے ریاست کو استعمال کر رہی ہے۔
بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی غیر ملکی ہاتھ ان تمام ریاست مخالف گروہوں کو چلا رہا ہےاور جس کا اصل مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ کوئی بھی اسلامی اصول پسند فرد یا گروہ اسلام کو ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتا، یہ صرف اسلام اور پاکستان دشمن عناصر ہی کر سکتے ہیں۔
جبکہ اس سے منسلک میڈیا ایسے ہر عمل سے باز رہے گا جو بین الاقوامی طاقتوں کو ناراض کر سکتا ہے، اس بات کی طرف واضح طور پر اشارہ کرتا ہے کہ یہ گروہ کسی ملک دشمن غیر ملکی ادارے کے لیے کام کر رہا ہے ، جس کی ناراضگی وہ نہیں مول سکتے۔ اور اس کے علا وہ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ان دہشت گرد تنظیموں کا بیشتر ٹارگٹ مسلمان اور اسلام ہے جو کہ اس بات کی نشاندھی کرتا ہے کہ یہ بین الاقوامی سازش کے آلہ کار ہیں جن کا مقصد واحد ایٹمی اسلامی ملک پاکستان کو باقی اسلامی ممالک کی طرح غیر مستحکم اور نا کام کرنا ہے جو کہ دشمن عناصر کے لئے ہمیشہ ایک خطرہ کی علامت ہے۔
اسکے علاوہ کہ جن حملوں میں عام شہریوں کی جانوں کا نقصان زیادہ ہوگا، ان بم دھماکوں کے لئے آئی ایس آئی کو ملامت کیا جائے گا تاکہ یہ ریاست کے مضبوط عناصر فوج اور عوام میں دراڑ ڈال سکیں۔
یہ بات واضح رہے کہ جہاں پاکستان کی سیکیورٹی فورسز شہادت کو ایک عظیم رتبہ سمجھتی ہیں ، اپنے شہداء کے قربانیوں کو کھلے دل سے قبول کرتی ہیں اور فلاح و بہبود کیلئے شہداء کے خاندانوں سے رابطے میں رہتی ہیں ، تحریک طالبان پاکستان بطور دہشت گرد تنظیم ، اپنے مرتد اور جہنم جہنم واصل ممبران کو چھپانے کی تاحد کوشش کرتی ہے کیونکہ یہ ٹی ٹی پی میں مایوسی ، دل شکستگی اور ناامیدی پھیلاتی ہے اور ان کے اصلیت کو ظاہر کرتی ہے ۔ ٹی ٹی پی در حقیقت ایک طاقت کی پیاسی دہشت گرد تنظیم ہے جس نے مذہب کی چادر اوڑھی ہوئی ہے ۔
یہ تمام عوامل اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ٹی ٹی پی اسلام د شمن عناصر کے ساتھ مل کر اسلام اور پاکستان کے نام کو بدنام کر رہی ہیں۔ ان کا اسلام مخالف قوتوں کے خلاف خاموشی اور ان کی سر پرستی میں کام کرنا اس بات کو واضح کر تا ہے کہ یہ اسلام مخالف گروہ ہے جس نے ہمیشہ اسلام اور پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔