افغانستان میں دہشتگردوں کی پناہ گاہیں اور خطے پر اثرات
افغان طالبان کی جانب 2021ء میں افغانستان پر قبضے کے بعد سے خطے کے پڑوسی ممالک میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ افغانستان کے پڑوسی اور دیگر ممالک نے افغان طالبان کو شواہد پیش کئے کہ افغانستان کی سرزمین دہشتگردی کیلئے استعمال ہو رہی ہے اور پڑوسی ممالک ان دہشتگردانہ کارروائیوں سے شدیدمتاثر ہیں ۔ رواں ماہ کے آغاز میں خطے کے چار اہم ممالک پاکستان، روس، چین اور ایران نے افغان طالبان کے ساتھ مختلف دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہ کرنے پر مشترکہ احتجاج ریکارڈ کرایا۔ مشترکہ احتجاج کی تجویز پاکستان کی طرف سے آئی، جس کا مقصد افغانستان کے اہم ہمسایہ ممالک کی جانب سے ایک متحدہ موقف اپناتے ہوئے افغان طالبان کی حکومت کو دہشتگردی کیخلاف کارروائیوں پر مجبور کر نا تھا۔
تاہم جب چاروں ممالک نے اپنے نمائندے کابل بھیجنے پر اتفاق کیا تو افغان طالبان نے غیر منطقی اقدام اٹھائے ہوئے کانفرنس میں دیگر ممالک ہندوستان، ترکی، انڈونیشیا اور بعض وسطی ایشیائی ریاستوں کے حکام مدعو کو مدعوکرلیا جن کاافغانستان کی سرزمین سے دہشتگردی سے متاثرہ ممالک میں شمار نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے ٭پاک فوج نے 11فروری 2024ء کو ضلع خیبر میں کامیاب آپریشن کے دوران دہشتگرد تنظیم داعش کے سرغنہ صورت گل عرف سیف اللہ کو جہنم واصل کیا جس سے پاکستان کے موقف کی تائید ہوتی ہے٭
کابل میں پاکستان کے ناظم الامور نے روس، ایران اور چین کے خصوصی ایلچی کے ساتھ مل کر دہشت گرد گروپوں کی جانب سے افغان سرزمین کے استعمال پر تحفظات کا اظہار کیا۔ ٭اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگرچہ افغان طالبان عام طور پر ٹی ٹی پی اور اس کے مقاصد کے بارے میں ”ہمدردانہ” نظریہ رکھتے ہیں، لیکن اس کے کچھ ارکان نے تو اپنا مذہبی فریضہ سمجھ کر پاکستان مخالف دہشت گرد تنظیم ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کرلی٭۔
دو سال سے زیادہ اقتدار میں رہنے کے باوجود ابھی تک کسی بھی ملک نے متعدد معاملات پرمثبت پیش رفت نہ ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے طالبان کی حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا ۔ کیا افغان طالبان دہشتگردوں کیخلاف موثر کارروائی کرتے ہوئے باہمی تعلقات کو مثبت سمت میں استوار کریں یا دہشتگردوں کی پشت پناہی جاری رکھیں گے؟