افغانیوں کو پاکستانی پاسپورٹ کا اجرا
13 December 2023
Published in: JANG
کسی بھی ملک کا پاسپورٹ دنیا بھر میں اُس ملک کے باشندوں کی شناخت تصور کیا جاتا ہے۔ جب آپ بیرون ملک کسی ایئرپورٹ پر اپنا پاسپورٹ امیگریشن افسر کو پیش دیتے ہیں تو وہ اس پاسپورٹ کی بنیاد پر اپنے ملک کے دروازے آپ کیلئے کھول دیتا ہے۔ اس طرح آپ دوران قیام وہاں اپنے ملک کے سفیر تصور کئے جاتے ہیں اور آپ کے اچھے برے کام آپ کے ملک کی نیک نامی اور بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں افغان باشندوں کو پاکستانی پاسپورٹ کے اجراء کے حوالے سے خبروں نے مجھ سمیت ہر پاکستانی کو حیرت زدہ اور تشویش میں مبتلا کردیا جس میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ افغان وزیر داخلہ سمیت 30سے 40 ہزار افغانیوں کے پاکستانی پاسپورٹ بلاک کردیئے گئے ہیں۔ اس حوالے سے کچھ عرصہ قبل سعودی حکام نے حکومت پاکستان کو آگاہ کیا تھا کہ افغانیوں کی بڑی تعداد نے سعودی عرب میں ملازمت کے حصول کیلئے پاکستانی پاسپورٹ حاصل کر رکھے ہیں۔ اس سلسلے میں سعودی حکام نے پاکستانی حکام کو اِن پاسپورٹس کی نقول بھی فراہم کیں اور تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ 12 ہزار سے زائد افغانی باشندے پاکستانی پاسپورٹ کی بناء پر پاکستانی تصور کئے جاتے ہیں اور پاکستانیوں کیلئے مختص ملازمت کے سعودی کوٹے پرسعودی عرب میں روزگار سے وابستہ تھے جنہیں پاکستانی وزارت داخلہ سے مشاورت کے بعد سعودی حکومت نے افغانستان ڈی پورٹ کردیا۔ اس طرح اس عرصے میں ہزاروں پاکستانیوں کی حق تلفی ہوئی اور پاکستان کروڑوں ڈالر کی ترسیلات زر سے محروم ہوا۔ بعد ازاں حکومت پاکستان نے جب اس معاملے پر تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا تو یہ ہوشربا انکشاف ہوا کہ پاکستانی پاسپورٹ کے حامل افغان باشندوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جس میں افغان وزیر داخلہ بھی شامل ہیں اور اگر حکومت پاکستان دیگر خلیجی ممالک میں بھی تحقیقات کا آغاز کرے تو پاکستانی پاسپورٹ کے حامل افغان باشندوں کی تعداد شاید لاکھوں میں ہو ۔ اطلاعات ہیں کہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں جعلی پاسپورٹ بنانے والے ایجنٹس سرگرم عمل تھے لیکن اس کا مرکزی گڑھ خیبرپختونخواکا علاقہ طورخم تھا جہاں جعلی دستاویزات کی بنیاد پر یومیہ سینکڑوں افغانیوں کو پاکستانی پاسپورٹ جاری کئے جاتے تھے جسکےعوض پاکستانی ایجنٹ افغان باشندوں سے 8 سے 10 لاکھ روپے فی کس وصول کرتے اور یہ رقم اعلیٰ حکام تک بھی جاتی تھی۔ اس حوالے سے نادرا کے کچھ افسران کی گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں لیکن جعلی پاسپورٹ بنانے میں ملوث بیشتر افسران ریٹائرڈ یا بیرون ملک منتقل ہوچکے ہیں اور یہ بات خارج از امکان نہیں کہ گرفتار افسران رشوت دے کر اپنے کیسز ختم کروالیں اور نقصان صرف پاکستان کو اٹھانا پڑے۔
میں گزشتہ کئی برسوں سے اپنے کالموں میں اس بات کی نشاندہی کرتا رہا ہوں کہ پاکستانی پاسپورٹ کی تنزلی کی بڑی وجہ غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم لاکھوں افغانیوں، بنگالیوں اور دیگر ممالک کے باشندوں کو پاکستانی پاسپورٹ جاری کرنا ہے، جو پاکستانی حکام سے رشوت کے عوض حاصل کئے گئے اور جن کے ذریعے افغان مہاجرین بالخصوص نوجوان خلیجی ممالک، یورپ اور دیگر ممالک کا سفر کرتے ہیں۔ یہ لوگ جب بیرون ملک پکڑے جاتے ہیں تو انہیں پاکستانی تصور کیا جاتا ہے جس سے پاکستان کی دنیا بھر میں بدنامی ہورہی ہے اور آج گرین پاسپورٹ کی عالمی رینکنگ صومالیہ سے بھی نیچے آگئی ہے لیکن میری نشاندہی کے باوجود اس پر کوئی توجہ نہ دی گئی اور آج یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے۔ ماضی میں پاکستان میں تعینات ایک غیر ملکی سفیر نے پاکستانیوں کے بارے میں یہ تضحیک آمیز الفاظ کہے تھے کہ ’’پاکستانی پیسے کے عوض اپنے ملک کا بھی سودا کرسکتے ہیں۔‘‘ افغانیوں کو پاسپورٹ جاری کرنے کے حوالے سے حالیہ انکشاف سے غیر ملکی سفیر کی یہ بات سچ ثابت ہورہی ہے کہ ہم نے رشوت کےعوض لاکھوں افغانیوں کو پاکستانی پاسپورٹ جاری کرکے ملکی سلامتی کا سودا کیا۔ رشوت ہمارے معاشرے میں اس قدر سرایت کرگئی ہے کہ ہر ناجائز اور غیر قانونی کام کی قیمت مقرر ہے جبکہ جائز اور قانونی کام کیلئے آپ کو دربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک پاکستانی کو اپنے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے حصول کیلئے والدین کا نکاح نامہ اور شناختی کارڈ بطورِ ثبوت دینا پڑتا ہے جبکہ دوسری طرف ہم غیر قانونی طور پر مقیم افغانیوں کو رشوت کےعوض اپنے ملک کی شناخت بیچ رہے ہیں جو ایک ناقابل معافی جرم اور ملک کے وقار سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا یہ اقدام قابل ستائش ہے کہ عالمی دبائو کے باوجود وہ غیر قانونی طور پر مقیم افغانیوں کو واپس بھیجنے کے فیصلے پر ثابت قدم رہے اور اب تک غیر قانونی طور پر مقیم 4 لاکھ سے زائد افغان ڈی پورٹ کئے جاچکے ہیں۔ اسی طرح آرمی چیف کے احکامات پر افغانستان اور ایران کے راستے اشیاء بالخصوص ڈالر کی اسمگلنگ پر کریک ڈائون کیا گیا جس سے روپے کی قدر میں استحکام آیا لیکن ملک میں آج بھی رشوت عروج پر ہے اور لوگ رشوت کےعوض اپنے ملک کے وقار کا سودا کرنے سے بھی نہیں ہچکچارہے۔ ایسے میں جب بیورو کریسی رشوت کے عوض ملکی سلامتی اور مفاد سے کھیلنے سے نہیں چوک رہی، نیب کے قوانین میں ترمیم کرکے اُنہیں پروٹیکشن فراہم کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے درخواست ہے کہ وہ ملک میں رشوت خوری کی روک تھام کیلئے بھی سخت اقدامات کریں۔ اگر وہ اس ناسور کا خاتمہ کرنے اوراس میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو قوم انہیں ہمیشہ بطورِ مسیحا یاد رکھے گی۔