افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے پاکستانی معیشت پر منفی اثرات

پاکستان اپنے جغرافیائی مح ِل وقوع اور سٹریٹیجک اہمیت کی بدولت بین االقوامی سطح پر اہم مقام رکھتا
ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی سرحدیں ایران، افغانستان، چین اور بھارت کے ساتھ ساتھ بحیرہ عرب سے بھی
ملتی ہیں، جو پاکستان کو باقی ساری دنیا سے مال رہا ہے۔ اسی سٹریٹیجک اہمیت کی وجہ سے دنیا کی بڑی
اور طاقتور ریاستیں بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں دلچسپی لے رہی ہیں جس سے بین
االقوامی تجارت کو بھی فروغ مل رہا ہے۔ اپنی اسٹریٹجک پوزیشن اور تین بندرگاہوں کی وجہ سے پاکستان
خاص طور پر افغانستان کے لیے ایک اہم الجسٹک مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔
کیونکہ چاروں طرف سے خشکی میں گھرے افغانستان کے لیے بیرونی دنیا سے سمندری راستے کے ذریعے
تجارت ہمسایہ ملکوں کی بندرگاہوں پر ہی منحصر ہے۔ اسی ضمن میں، ا کتوبر 2010 میں ایک معاہدہ
‘افغانستان، پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ’ کے نام سے کیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت افغانستان نے
پاکستان کے راستے دنیا سے برآمدات اور درآمدات جاری رکھیں۔ اس دوران مختلف اوقات میں پاکستان کی
جانب سے تشویش ظاہر کی گئی کہ اس معاہدے کا فائدہ اٹھا کر اسمگلرز پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچا
رہے ہیں۔
اسی ضمن میں، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے زیر انتظام کام کرنے والے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ٹریڈ نے اپنی
رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ افغان ٹرانزٹ اور افغان درآمدات پاکستان کی معیشت پر منفی اثر ڈال رہے
ہیں۔ جس سے پاکستان میں بلیک ا کانومی کو فروغ مل رہا ہے ۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ افغانستان جان
بوجھ کر بین االقوامی اداروں کو اپنی درآمد کا مکمل اور درست ڈیٹا فراہم نہیں کر رہا۔ مثال کے طور پر،
افغانستان کی طرف سے اقوام متحدہ کے بین االقوامی تجارتی مرکز کے ادارے کو دی گئی معلومات دراصل
حقیقی اعدادوشمار سے کئی گنا کم بتائی گئ ہیں، تاکہ سمگلنگ کے بارے میں پاکستان کے خدشات کو رد کیا
جا سکے۔ مثالً ، افغان حکومت نے موجودہ سال پاکستان سے گزرنے والی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو 14.8 ارب
ڈالر بتایا ہے جبکہ پاکستانی اعدادوشمار کے مطابق یہی درآمدات درحقیقت 44.4 ارب ڈالر ہیں۔ رپورٹ میں
مزید کہا گیا کہ بڑے شہروں میں ایسی مارکیٹوں کو فوری طور پر بند کیا جانا چاہیے جہاں اربوں روپے کی
اسمگل شدہ اشیاء فروخت ہوتی ہیں، اور جعلی سیلز ٹیکس رجسٹریشن اور امپورٹ الئسنس کی حوصلہ
شکنی کے لیے ایک نیا طریقہ رائج کیا جانا چاہیے۔
حال ہی میں ایف بی آر کے چیئرمین نے ملک بھر کے کسٹم افسران کے ساتھ ویڈیو کانفرنس کی جس میں یہ
بات بھی سامنے آئی کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت افغانستان کی درآمدات میں 67 فیصد اضافہ ہوا، جو
فروری 2023-2022 میں 6.71 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ گئی۔ اس کے برعکس، گزشتہ سال ان کی درآمدات
مجموعی طور پر 4 ارب امریکی ڈالر تھیں۔ جس میں چائے، ٹائر ٹیوب، الیکٹرانکس، برقی آالت اور آرٹیفیشل
فائبر شامل ہیں جو افغانستان ایشیاء سے درآمد کرتا ہے۔ ان درآمدات میں بالترتیب 35 فیصد، 72 فیصد،
80 فیصد اور 59 فیصد اضافہ ہوا۔
افغانستان کی درآمدات میں تیزی سے اضافے کے نتیجے میں پاکستان میں بہت ساری مصنوعات کی
درآمدات میں مزید کمی واقع ہوئی جیسا کہ ٹیکسٹائل مصنوعات میں 48 فیصد، الیکٹرانک آالت 62 فیصد،
ٹائر اور ربڑ 42 فیصد، چائے 51 فیصد، 34 فیصد مشینری، اور 46 فیصد سبزیوں اور پھلوں کی درآمد میں
بھی کمی ہوئی۔
پچھلے دو سالوں کی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پروڈکٹس کا ایک جامع موازنہ کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ
پاکستان کے ذریعے ٹرانزٹ درآمدات میں اضافے کا تعلق پاکستان کی ان مصنوعات کی کم درآمدات سے کیا جا
سکتا ہے جو “افغانستان کو درآمد کی گئی تھیں۔” اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان اجناس کی سمگلنگ میں نمایاں
اضافے نے نہ صرف پاکستان کی آمدنی کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ حکومت کی درآمدات میں کمی کی پالیسیوں
کو بھی غیر موثر بنا دیا ہے۔
ادائیگیوں کے توازن کے بحران اور مالیاتی ڈیفالٹ کے خطرے کے ساتھ، ملک غیر قانونی مصنوعات کو مفت میں
داخل ہونے کی اجازت دے کر مزید نقصان اٹھا رہا ہے۔ جبکہ پاکستان کا نقصان یہاں ختم نہیں ہوتا۔ اس وقت
افغانستان اعالنیہ طور پر ” شدت پسند” حکومت کے زیر تسلط ہے۔ تحری ِک طالبان افغانستان کے ساتھ مقامی
اور بین االقوامی دہشت گرد گروہوں کی وابستگی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ان گروپوں کی مالی اعانت کے لیے
بہت زیادہ رقم درکار ہوتی ہے اور ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے ملنے واال معاوضہ اسی مقصد کے لیے استعمال کیا
جارہا ہے۔
اسی طرح، تحریک طالبان افغانستان داعش خراسان، اور تحریک طالبان پاکستان جیسی دہشتگرد تنظیموں
کی سرپرستی کر کے پاکستان میں سیکیورٹی کے لیے ایک بڑا چیلنج بھی پیدا کر رہا ہے۔
حال ہی میں جب پاکستان میں معاشی بحالی کے لیے اقدامات اٹھائے جا رہے تھے تو ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کی
ضابطہ کاری پر بھی غور و فکر کیا گیا۔ وزار ِت تجارت اور وزار ِت خزانہ کے ذیلی اداروں کی جانب سے پاک افغان
سرحد پر ہونے والی اسمگلنگ پر قابو پانے کے لیے 212 ایسی اشیا پر پابندی لگا دی گئی جس کے حوالے
ٰی کیا کہ انہیں پاکستان اسمگل کیا جاتا تھا۔
سے پاکستانی حکام نے دعو
عالوہ ازیں، پاکستان نے متعدد طریقوں سے ٹرانزٹ کامرس کو کنٹرول کرنے والے قوانین کو مضبوط بھی کیا ہے۔
ان پابندیوں میں افغان درآمد کنندگان سے بینک گارنٹی کی شرط، مخصوص اشیاء )جو آسانی سے سمگل ہو
سکتی ہیں(کی درآمد پر پابندی اور کچھ درآمدات کے لیے پروسیسنگ فیس وصول کرنا شامل ہیں۔
مذید برآں، ، موجودہ حاالت میں، حکومت نے غیر قانونی افغان مہاجرین کو ان کے ملک واپس بھیجنے کا درست
قدم اٹھایا ہے، جو ان غیر قانونی سرگرمیوں کے اہم سہولت کار تھے۔ اس سلسلے میں پاکستان نے یہ بات بالکل
واضح کر دی ہے کہ افغانستان سے آنے والی کچھ اشیاء کے لیے جو پروسیسنگ فیس کی جاتی ہے وہ کوئی
ٹیرف نہیں ہے بلکہ ٹرانزٹ ٹریڈ رجیم کو چالنے سے وابستہ اوور ہیڈ کی ادائیگی کا ایک طریقہ ہے۔
مذکورہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ریاست پاکستان کی یہ ضرورت تھی کہ وہ ٹرانزٹ ٹریڈ کے حوالے سے
سخت اقدامات کرے تاکہ معیشت کو مستحکم کیا جا سکے ۔
موجودہ افغان حکومت کے طرز عمل اور حکومت کی دوغلی فطرت کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے لیے ان سے
ہم آہنگ ہونا مشکل ہے۔ اگرچہ، پاکستان کا ہاتھ تعاون کے لیے ہمیشہ افغانستان کی طرف بڑھا رہے گا لیکن
پاکستان کا اپنا مفاد، امن اور استحکام ہمیشہ پاکستان کی اولین ترجیح رہے گی۔

COMMENTS

Wordpress (0)
Disqus ( )