ایران اور پاکستان۔ مجرم کون؟

سلیم صافی

20 January 2024

جنگ

ایران سمجھتا ہے کہ سی پیک کی کامیابی کی صورت میں اسکے چابہار کی اہمیت ختم ہوجائے گی اسلئے وہ پاکستانی بلوچ عسکریت پسندوں کو اپنے سیف ہاؤسز میں رکھتا ہے (گلزار امام شنبے تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ایران کے سیف ہاؤس میں رہے) اور دوسری طرف انڈیا کے کلبھوشن یادیو جیسے کرداروں کو اپنی دستاویزات کیساتھ پناہ دیتا ہے۔ماضی میں پاکستان جنداللہ کے درجنوں اہلکاروں کو گرفتار کرکے ایران کے حوالے کر چکا ہے لیکن ایران کیطرف سے پاکستان کو مطلوب افراد کبھی پاکستان کے حوالے نہیں کئے گئے۔

ماضی میں ایران الزام لگاتا رہا کہ جنداللہ کے سربراہ عبدالمالک ریگی پاکستان میں رہتے ہیں لیکن جب وہ گرفتار ہوئے تو ایک عرب ملک جارہے تھے اور انکے ہاں سے افغان حکومت کے ٹریول ڈاکومنٹس برآمد ہوئے۔ پاکستان چاہتا تو ایرانی دستاویزات کیساتھ چابہار میں قیام کرنے والے انڈیا کے حاضر سروس انٹیلی جنس افسر کلبھوشن یادیو کو ایران کیخلاف بہت بڑے ہتھیار کے طور پر استعمال کرسکتا تھا تاہم اس نے ایسا نہیں کیا لیکن افسوس کہ ایران کے رویے میں پھر بھی تبدیلی نہ آئی۔

علیحدگی پسند عناصر کی سرکوبی کیلئے دونوں ممالک کے درمیان رابطوں کا ایک میکنزم بھی موجود ہے لیکن نہ جانے کیوں اب کی بار ایران نے سفارت اور سرحدی رابطوں کو بالائے طاق رکھ کر بلوچستان میں حملہ کردیا۔پاکستان نے فوری طور پر سفارتی محاذ پر شدید احتجاج تو کیا لیکن ساتھ ہی درون خانہ رابطوں کے ذریعے ایران سے کہتا رہا کہ وہ اسے اپنے کسی افسر کی غلطی تسلیم کرکے معافی مانگ لے لیکن ایران مصر رہا کہ اس نے کچھ غلط نہیں کیا ایران کوئی ثبوت بھی نہ دے سکا کہ وہاں ایرانی بلوچ عسکریت پسند تھے چنانچہ پاکستان جواب دینے پر مجبور ہوا.

پاک ایران تناؤ کا فائدہ اسرائیل کے بعد کسی اور قوت کو ہوسکتا ہے تو وہ بلوچ علیحدگی پسند ہیں جو ایران کیلئے بھی خطرہ ہیں اور پاکستان کیلئے بھی۔ ان سے نمٹنے کیلئے ایک دوسرے سے تعاون ضروری ہے۔ایران اگر باہمی طور پر پاکستان کیساتھ معاملے کو حل نہیں کرسکتا تو دونوں ممالک چین کی ثالثی میں کوئی مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دیں۔

COMMENTS

Wordpress (0)
Disqus ( )