بلوچستان کا سوال
محمد مہدی
جنگ
منتخب حکومت کا قیام بس اب چند روز کی مسافت پر ہے اور اس حکومت کو بلا مبالغہ جس بڑے چیلنج سے نبرد آزما ہونا ہے وہ تشویش ناک معاشی صورتحال ہے اور معاشی ترقی کیلئے بنیادی شرط امن و امان کی بہتر حالت ہے ۔ جب تک وطن عزیز سے دہشت گردی کامکمل قلع قمع نہیں کردیا جاتا اس وقت تک یہ گمان بھی کرنا کہ معاشی بہتری آ سکتی ہے، دیوانے کا خواب ہی ہوگا۔ دہشت گردی کا جیسے ہی ذکر سامنے آتا ہے تو بلوچستان کا سوال سر فہرست دکھائی دیتا ہے ۔
بلوچستان کا سوال یہ ہے کہ وہاں پر مستقل بنیادوں پر یہ تاثر موجود ہے کہ وہ پاکستان کی حکومت میں مشترکہ طور پر شامل نہیں ہے بلکہ انکو اورانکی رائے کو پامال کر دیا جاتا ہے اور اس پامالی کی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان کومعاشی حقوق سے محروم رکھ کر ملک کی اشرافیہ ان وسائل سے اپنی ہوس پوری کرے۔ بلوچستان کے مسائل حل نہ ہونے کا سب سے بڑاسبب ہی یہ ہے کہ وہاں پر بار بار مسلح کارروائیاں شروع کردی جاتی ہیں اور پھر ان دہشت گردی کے اقدامات کی وجہ سے یکطرفہ طور پر ریاست کو کارروائی کرنے سے بھلا کیسے روکا جا سکتا ہے ؟
مسنگ پرسنز تو کتنے ہیں اور کتنے خود کو مسنگ پرسن ثابت کرکے دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہیں اور خود ساختہ’’دانش ور‘‘ صاحبان انکے دکھ میں ہلکان ہوئے جا رہے ہیں مگر ان اساتذہ سے لے کر دیگر افراد کے قتل کے ذکر پر انکوسانپ سونگھ جاتا ہے۔ نئی منتخب حکومت کے سامنے یہی پہاڑ جیسے مسائل کھڑے ہونگے اور ان تمام مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ پاکستان میں آئین کی مکمل طور پر عمل داری ہو اور یہ تصور مضبوط کیا جائے کہ ملک میں کچھ بھی آئین کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ اسی راستے سے بلوچستان میں مشترکہ حاکمیت کا تصور قائم کیا جا سکتا ہے اور ریاست پر مشترکہ ملکیت کا احساس اجاگر ہو سکتا ہے۔