بھارت میں مسلمان نمازیوں پر بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات
Courtesy: DW
نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ گجرات یونیورسٹی میں بیرونی ممالک کے طلباء پر ہونے والے حملے میں جو افراد بھی ملوث ہیں، ان کے خلاف مقامی حکومت سخت کارروائی کر رہی ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے سوشل میڈیا ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ احمد آباد کی گجرات یونیورسٹی میں “تشدد کا ایک واقعہ پیش آیا اور اس میں دو بیرونی طلباء زخمی بھی ہوئے۔” ان کا کہنا تھا، “ان میں سے ایک طالب علم کو طبی امداد ملنے کے بعد ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا ہے۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ وزارت خارجہ اس معاملے پر گجرات کی حکومت سے رابطے میں ہے۔ اطلاعات کے مطابق گجرات یونیورسٹی میں زیر تعلیم ایک سری لنکا کا اور ایک تاجکستان سے تعلق رکھنے والے لڑکے کو حملے کے بعد ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ اس معاملے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں۔ گجرات پولیس اور یونیورسٹی انتظامیہ نے بھی نماز پڑھنے کی وجہ سے ہونے والے اس جھگڑے کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی اس میں ملوث ہیں، ان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ حکام نے اس حوالے سے متعدد بیان جاری کیے ہیں اور کہا کہ اس معاملے میں اب تک پانچ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ سینیئر پولیس افسران نے بتایا کہ یہ واقعہ رات کے تقریباً ساڑھے دس بجے پیش آیا، جب گجرات یونیورسٹی کے ہاسٹل میں تقریبا 25 افراد داخل ہوئے۔ “جب یہ گروہ داخل ہوا، تو کچھ طلباء ایک پلیٹ فارم پر (ہاسٹل کے احاطے کے اندر) ہی نماز ادا کر رہے تھے۔ گروپ نے ان سے پوچھا کہ وہ وہاں کیوں نماز پڑھ رہے ہیں اور ان سے کہا کہ وہ کسی مسجد میں جائیں۔”*پولیس کے مطابق اس کے بعد گروپ کے کچھ لوگ ہاسٹل کے کمروں میں گھس گئے اور املاک کی توڑ پھوڑ کے ساتھ ہی بیرونی طلباءکو مارا پیٹا۔ گجرات میں ہندؤ قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت ہے، جہاں مسلمانوں کے ساتھ تفریقی سلوک ایک عام بات ہے۔ تاہم پولیس نے اب تک یہ نہیں بتایا کہ کس گروپ کے لوگوں نے حملہ کیا، البتہ یہ بات واضح ہے کہ عام طور پر یہ حرکت سخت گیر ہندؤ تنظیم کے کارکن کرتے ہیں، جنہیں حکمراں جماعت کی پشت پناہی حاصل رہتی ہے۔ ایک افغان طالب علم نے بھارتی اخبار ‘ہندوستان ٹائمز’ کو بتایا کہ حملہ آور “جئے شری رام” کے نعرے لگا رہے تھے اور اندر آتے ہی سکیورٹی گارڈ کو عمارت سے باہر دھکیل دیا۔