داعش اور انڈیا کا گٹھ جوڑ بے نقاب
افغان انٹیلیجنس ایجنسی جی ڈی آئی نے قندھار سے ثنا الاسلام نامی انڈین ایجنٹ کو داعش-خراسان کے ساتھ مبینہ رابطے کی بنیاد پر گرفتار کیا جس سے انڈیا اور داعش کے تعلقات صاف ظاہر ہوتے ہیں۔ حال ہی میں افغانستان انٹیلیجنس ایجنسی نے قندھار سے ایک انڈین کو گرفتار کیا جو کہ مبینہ طور پر آئی ایس کے پی کے ساتھ رابطے میں تھا۔تفتیش کے دوران ملزم نے اعتراف کیا کہ وہ دہلی میں موجود بھارتی انٹیلیجینس ایجنسی را کے کہنے پر قندھار آیا تھا۔ اس واقعے کے بعد نام نہاد اسلامی تنظیم آئی ایس کے پی کے پیچھے چھپے بیرونی ہاتھ کھل کر سامنے آگئے ہیں
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ آئی ایس کے پی اور اس جیسی اور بھی بہت سی انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیموں کو انڈیا کی مکمل حمایت حاصل رہی ہے۔ پینٹاگون کے ترجمان، جان کربی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد بگرام جیل سے بھاگنے والوے دہشت گردوں میں سےزیادہ تر ہندوستانی شہری تھے۔ ہندوستان کے لوگوں کا ISKP میں شامل ہونے اور افغانستان میں کارروائیوں میں حصہ لینے کی متعدد رپورٹس کا شائع ہونا انڈیا اور داعش کے قریبی تعلقات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
مثلاً کابل کے ہوائی اڈے پر 13 امریکی اہلکاروں کو ہلاک کرنے والے آئی ایس کے پی کے خودکش بمبار کو 5 سال قبل دہلی سے گرفتار کیا گیا تھا جس کو پھر رہا کر دیا گیا۔ یہاں پر سوال تو یہ بنتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوری طاقت نے آخر اتنے خطرناک دہشت گرد کو رہا کیوں کیا؟ کیا اس کے رہائی میں انڈیا کے اپنے مقاصد چھپے تھے؟ اس بات میں تو کوئی شک و شبہ نہیں رہا کہ ہندوستان نے ہمیشہ سے افغانستان میں موجود داعش کے شرپسندوں کو مالی معاونت فراہم کی یہاں تک کہ افغانستان میں ہندوستان کے سابق سفیر امر سنہا آئی ایس کے پی کے ہینڈلر کے طور پر مشہور تھے۔ برطانیہ کے رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کے ایک سینئر ایسوسی ایٹ فیلو رافیلو پنٹوچی نے ہندوستان اور داعش کے مبینہ تعلقات کو متعبر میگزین فارن پالیسی میں اجاگر کیا۔ یہاں پر یہ بات زیر غور ہے کہ ہندوستان میں داعش کے افراد کی موجودگی کے باوجود وہاں آج تک داعش کی جانب سے کوئی بڑی کاروائی نہیں کی گئی۔
یقیناً ہندوستان دہشت گرد گروہوں کو خطے میں ہندوستانی مفادات کو آگے بڑھانے اور افغانستان اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے پراکسی کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ ہندوستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے افغان سرحد کے ساتھ تقریباً 87 دہشت گرد کیمپ قائم کیے، جو نہ صرف پاکستان میں دہشت گردانہ کاروائیاں سر انجام دیتے ہیں بلکہ افغانستان میں موجود آئی ایس کے پی، القاعدہ اور ٹی ٹی پی کے دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف کیے گئے ہر کاروائی کو روکتے ہیں۔اپنے قیام کے بعد سے، داعش نے پاکستان میں متعدد دہشت گرد حملے کیے ۔2023 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے اندر 13 حملے ہوئے جن میں 265 افراد ہلاک ہوئے۔
را جیسی بیرونی طاقتوں کا آئی ایس کے پی جیسی دہشتگرد تنظیم کے لیے حمایت خطرے کی علامت ہے۔ یہ نہ صرف خطے میں سیکیورٹی خدشات کو بڑھائے گا بلکہ جنوبی ایشیا میں ملکوں کے درمیان تصادم کو جنم دے گا۔ وقت آگیا ہے کہ انڈیا اپنے قبلے کو درست کرے اور دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے کے بجائے ان کو ختم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے ۔ یہی خطے میں امن کا واحد ضامن ہے۔