رام مندر کا افتتاح حقیقت میں ایک یوم سیاہ؟
میجر (ر) ساجد مسعود صادق
ایکسپریس
بابری مسجد کو سن 1992ء میں ہندو بلوائیوں نے یہ کہہ کر شہید کر دیا کہ یہ ان کے مذہبی رہنما ” رام ” کی جنم بھومی یعنی جائے پیدائش ہے- ایک اہم سوال یہ ہے کہ اس مسجد کی شہادت کا واقعہ سن 1992 ء میں ہی کیوں پیش آیا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ مودی کے دور میں اس کا افتتاح کیوں کیا جا رہا ہے؟ تیسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا جدید ریاستی نظام اور موجودہ لبرل ورلڈ آرڈر جس کا داعی اور محافظ امریکی قیادت میں پورا مغرب ہے، اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کسی بھی مذہب کے مقدس مقام کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے؟ چوتھا سوال یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ازم کا دعوی کرنے والی ریاست بھارت کو یہ زیب دیتا ہے کہ کسی دوسرے مذہب کےپیروکاروں کے مذہبی مقام کو ملیامیٹ کر کے ہندو مندر تعمیر کرے؟ پانچواں سوال یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری بالخصوص مسلم ممالک کا اس پر رسپانس کیا ہے ؟
یہ بات حیران کن ہے کہ آج جب عرب ممالک ہندو مندروں کے افتتاح کر رہے ہیں۔ بھارت میں مسلم کش فسادات ہوں یا کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی یا پھر بابری مسجد کی شہادت اس پر مغربی طاقتوں نے جہاں ہمیشہ چشم پوشی ہی کی ہے، وہاں اپنے معاشی مفادات کی خاطر مسلمان ممالک کی بے حسی بھی حیران کن ہے-صرف پاکستان ہے جس کی بھارت میں مسلمانوں کے حقوق کی پامالی کی خاطر اٹھائی گئی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز کی مانند ہے جو وقفے وقفے سے ہر فورم پر گونجتی نظر آتی ہے ۔
ہندو مذہب کو مودی آئندہ الیکشن میں ایک کارڈ کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے ۔ ” رام مندر” کی تعمیر اور مودی کے ہاتھوں اس کا افتتاح بالکل ایسے ہی ہے جیسے اسرائیل کا سر براہ نیتن یا ہوا اپنے مذہبی مقام بیت المقدس کی خاطر فلسطین کے نہتے عورتوں، بچوں اوربوڑھوں پر مہلک بم بھی برسا رہا ہے اور ان تک کھانے پینے کی اشیاء کے علاوہ ادویات کو بھی پہنچنے نہیں دے رہا۔ بلاشبہ آج کا سیاہ دن بھارت کے نام نہاد سیکولر روپ کے پیچھے چھپے جنونی مذہبی چہرے اور ریاستی سربراہی میں مسلمانوں اور ان کے مقدس تاریخی مقامات کے خلاف بھارتی دہشت گردی کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے۔