عدلیہ اور غیر قانونی مقیم افغانوں کی واپسی

ماریہ منصب

نئ بات

غیر قانونی مقیم افراد کے انخلاء کا فیصلہ پاکستان کی قومی، معاشی اور دفاعی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا گیا تھا۔

یکم دسبر ، 2023 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ سنایا کہ پاکستان کو اس سلسلے میں کچھ بین الاقوامی ذمہ داریوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ اور یہ کہ غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ نگران حکومت کے دائرہ کار سے متجاوز ہے ۔

شہریت کے 1951 کے قانون کی شق نمبر 4 جو پاکستان میں پیدائش پر شہریت کے حق کے حصول کی بات کرتی ہے کے ساتھ ایک شق نمبر 5 بھی ہے جس کے مطابق شہریت حاصل کرنے والے کسی بھی فرد کے والد کا بھی پاکستانی شہری ہونا ضروری ہے۔

پاکستان نے نہ تو 1951 کے بین الاقوامی رفیوجی معاہدے پر دستخط کئے ہوئے ہیں اور نہ 1961 کے معاہدے پر، جن کا حوالہ معزز عدالت نے دیا ہے۔ پاکستان اپنے قومی مفادات کی ترجیحات میں آزاد ہے۔

یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب فیصلے وسیع تر قومی مفاد اور عوامی بہبود کے تناظر میں لئے جا رہے ہیں تو پھر سپریم کورٹ کیسے اس میں رکاوٹ ڈال سکتی ہے۔ہمیں سمجھنا چاہیےکہ اس طرح کے امور پر کئے جانے والے عدالتی فیصلوں کے معاشی و دفاعی نوعیت کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔ ریکوڈک کا کیس ، جس میں پاکستان کو بڑے پیمانے پر معاشی نقصان برداشت کرنا پڑا، اس طرح کے عدالتی فیصلوں کی ایک مثال ہے۔

COMMENTS

Wordpress (0)
Disqus ( )