فوجی عدالتیں اور عوامی مغالطے
Najam Wali Khan
15 December 2023
وہ لوگ جو بیانیے بنانے کے ماہر ہیں، جن کے اپنے دور میں فوجی عدالتوں سے سویلینز کو عمر قید سے سزائے موت تک ہوتی رہیں، آج وہ خود ان کی زد میں آئے ہیں تو وہ فوجی عدالتوں کی مخالفت کر رہے ہیں.
فوجی عدالتوں سے سزاؤں کےخلاف دلائل کے انبار لگے جا رہے ہیں, انہیں غیر معمولی, غیر آئینی کہا جا رہا ہے. کسی بھی ملک کی فوج کے ہیڈکوارٹرز پر حملے بھی غیر معمولی جرم ہیں تو پھر انکے ساتھ ٹریٹمنٹ بھی غیر معمولی ہی ہوگی. -پاک فوج پر حملے ہوئے تو اس آئین، قانون اور اداروں کے ذریعے ایک میچور رسپانس کا راستہ اختیار کیا ورنہ سب جانتے ہیں کہ حملے کا جواب حملہ ہی ہوتا ہے۔ غیر آئینی کا جواب یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا نو رکنی بینچ اس سے پہلے یہ قرار دے چکا ہے کہ جرم کا تعلق اگر فوج سے ہو تو اس کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہوسکتا ہے۔
کہتے ہیں کہ فوجی عدالتیں صرف فوجیوں کے لئے ہونی چاہئیں مگرسوال پھر یہ ہے کہ ہمارے بچوں کو شہید کرنے والوں کے یہ ترجمان کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں، کیا یہ ہمارے بچوں کا قتل عام جاری رکھنا چاہتے ہیں۔یہ کون لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ ہماری فوج کے ہیڈکوارٹرز پر کوئی بھی سیاسی یا مذہبی گروہ جب چاہے چڑھائی کر لے، اسے نذر آتش کر دے، وہ کام کردے جس کا خواب بھارت 70ء برس سے دیکھتا چلا آ رہا ہے مگر اس وقت بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا.
اگر مقدمات عام عدالتوں میں بھیجیں گے تو وہاں تاریخوں پر تاریخیں ہوں گی مگر انصاف نہیں ہو گا۔ یہ وہ عدالتیں جو ملزم کے پھانسی چڑھنے کے بعد اس کی بے گناہی کا فیصلہ کرتی ہیں، یہ مارشل لاؤں کو جائزیت عطاء کرتی ہیں، یہ منتخب وزیراعظموں کو پھانسیاں دیتی اور انہیں جلاوطنی پر مجبور کر دیتی ہیں۔ مگر اب قاضی فائز عیسی نے جس طرح ماضی کی غلطیوں کی درستگی کا کام شروع کیا ہے، اب ایک ا مید ضرور ہے۔