قومی سلامتی پر مزید سمجھوتہ نہیں کر سکتے
بدھ 20 دسمبر 2023ء
نوار الحق کاکڑ
92 نیوز
پوری دنیا میں، حکومتیں تنازعات، موسمیاتی تبدیلی اور اقتصادی وجوہات کی بنا پر بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے ایک نئے دور سے گزر رہی ہیں۔ مغرب تکلیف دہ فیصلوں کے لیے کوئی اجنبی نہیں ہے ۔ برطانیہ کی حکومت کا غیر قانونی تارکین وطن کو روانڈا بھیجنے کا منصوبہ اسی دباؤ کی علامت ہے۔اس تجویز کے ارد گرد گرما گرم بحث اور اسکیم کو پٹڑی سے اتارنے کی بہت سی کوششیں پالیسی سازوں کے لیے بہت بڑے چیلنجوں کی عکاسی کرتی ہیں کیونکہ وہ انسانی حقوق کو سخت حقائق کے ساتھ متوازن کرنا چاہتے ہیں۔ فرانس بھی جدوجہد کر رہا ہے، جبکہ اٹلی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ وہ “یورپ کا مہاجر کیمپ” بن سکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں کئی ملین پناہ گزینوں کے لیے اپنے باڈر کھولنے کے بعد، جرمنی بھی تناؤ محسوس کر رہا ہے، اورملک بدری کے نئے سخت اقدامات کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ امریکہ میں بھی صورتحال آسان نہیں ہے۔ پاکستان کا مسئلہ بالکل مختلف نوعیت کا ہے۔ گزشتہ تین سے چار دہائیوں کے دوران، افغانستان سے چار سے پانچ ملین کے درمیان تارکین وطن جو تقریباً آئرلینڈ کی آبادی کے برابر ہیں پاکستان آچکے ہیں۔ مہاجرین سے متعلق 1951ء کے کنونشن اور اس کے 1967 پروٹوکول کے غیر دستخطی ہونے کے باوجود، ہم نے فراخدلی سے مہاجرین کے کو خوش آمدید کہا ہے۔مہمان نوازی پاکستان کے ڈی این اے میں ہے اسی لیے ہم اپنی قانونی، اخلاقی اور انسانی ذمہ داریوں کو پورا کرتے رہیں گے۔ہم نے بہت طویل عرصے تک مہاجرین کو زیادہ سے زیادہ ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی جب کہ ان لوگوں کو رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے کا موقع فراہم کرنے کا حق نہیں ہے۔بدقسمتی سے، رضاکارانہ طور پر وطن واپسی کے بار بار مواقع کے باوجود، اور غیر دستاویزی طور پر رہنے والوں کو رجسٹر کرنے کی متعدد حکومتی مواقع کے باوجود، ایک قابل ذکر تعداد نے مستقل طور پر اپنی حیثیت کو قانونی بنانے سے انکار کیا ہے۔اگرچہ پاکستان نے بہت سے محنتی اور قانون کی پاسداری کرنے والے تارکین وطن سے فائدہ اٹھایا ہے، لیکن اس مسئلے کی مجموعی سماجی، اقتصادی اور سیکورٹی لاگت حیران کن ہے۔ بہت سے لوگ بلیک مارکیٹ میں کام کرتے ہیں، کوئی ٹیکس نہیں دیتے، جائز کارکنوں کے لیے اجرت کم ہو رہی ہے۔ وہ مجرمانہ سرگرمیوں اور انڈرورلڈ کے استحصال کا شکار بھی ہو رہے ہیں، اس سے بھی بڑھ کر ان کے خطے میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں سے پریشان کن حد تک روابط سے ہیں۔ اگست 2021 سے، کم از کم 16 افغان شہریوں نے پاکستان کے اندر خودکش حملے کیے ہیں، جب کہ 65 دہشت گرد خاص طور پر سرحدی علاقے میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ مقابلوں میں مارے گئے، جن کی شناخت افغانوں کے طور پر کی گئی۔ کوئی بھی ذمہ دار حکومت ایسے خدشات کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔ جب بھی ہم نے یہ بات عبوری افغان حکومت کے ساتھ اٹھائی تو انہوں نے ہمیں ’’اپنا گھر ٹھیک کرنے‘‘ کا مشورہ دیا۔ ہم نے آخر کار ’’اپنے گھر کو ٹھیک ‘‘کرنے کے لیے ان کے مشورے پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہمارے وطن واپسی کے پروگرام کے ردعمل میںافغان حکومت اور دیگر متعدد حلقوں کی جانب سے تنقید شروع ہو گئی ہے جو مسئلے کی پیچیدہ تاریخ کو نہیں سمجھتے ہیں ۔ ان کو ایسے غیر معمولی اقدامات کا بھی ادراک نہیں جو حکومت پاکستان نے زبردستی ملک بدری سے بچنے کے لیے کئے ہیں۔خاص طور پر سوشل میڈیا پر غلط معلومات اور بے بنیاد الزامات کی بھرمار ہے۔ اس طرح کے کسی بھی پروگرام میں ہمیشہ مشکل معاملات کی ایک چھوٹی سی تعداد ہوگی۔ ہم نے ان تمام لوگوںجو وطن واپس بھیجے جا رہے ہیں، کی بہبود کے لئے ایک گہری ذمہ داری کو محسوس کیا اور محسوس کرتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈی پورٹ ہونے والوں کے ساتھ مناسب احترام اور دیکھ بھال کے ساتھ نرم برتاؤ اختیار کیا جا رہا ہے۔ مزید برآں، ہماری پوری کوشش ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ رضاکارانہ، محفوظ اور باوقار وطن واپسی کے ساتھ واپس جانے والوں کے اثاثہ جات بھی ان کے ساتھ واپس جائیں نہ کہ ملک بدری جیسی صورتحال ہو۔ افغانستان واپس جانے والوں میں سے تقریباً 93 فیصد نے رضاکارانہ طور پر ایسا کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ رجسٹریشن کارڈ کے ثبوت کے لیے درخواست دینے والے 1.46 ملین افغانوں میں سے کسی کو بھی واپس نہیں بھیجا گیا ہے۔ اور نہ ہی ان کو جن 800,000 یا اس سے زیادہ کے پاس افغان شہری کارڈ ہیں ان کوواپس بھیجا جا رہا ہے۔ ہم نے تقریباً 79 ٹرانزٹ مراکز قائم کیے ہیں، جن میں مفت کھانا، پناہ گاہ اور طبی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں جبکہ عمل کو آسان بنانے کے لیے پاک افغان سرحد پر اضافی کراسنگ پوائنٹس کھولے گئے ہیں۔ سیکورٹی اہلکار تارکین وطن کو سرحدی گزرگاہوں تک لے جا رہے ہیں، خواتین اور بچوں کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ کسی بھی بدسلوکی کی اطلاع دینے کے لیے ایمرجنسی ہیلپ لائنز دستیاب ہیں۔واپس آنے والوں کے ظلم و ستم کے خطرے کوکچھ زیادہ ہی بڑھا چڑھا کر بیان کیا جا رہا ہے۔ ہم اسے بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں، اور وطن واپس جانے والوں اور کابل اور قندھار کے حکام کے درمیان مضبوط قبائلی اور علاقائی روابط کر کے انہیںواپس بھیجا جاتا ہے۔ اس کے باجود عبوری افغان حکومت نے بھی واپس آنے والوں کی بہبود کے لیے تشویش ظاہر کی ہے۔ اگست 2020 میں افغانستان سے مغربی اتحادیوں کے اچانک انخلا نے پاکستان میں مہاجرین کی ایک مکمل نئی آمد کو جنم دیا۔ لاکھوں افغان شہری یہ کہہ کر سرحد پار کر گئے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ ہم ان کی فلاح و بہبود کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں، یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ کچھ کو خصوصی تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ہم خطرے میں پڑنے والے گروہوں، جیسے موسیقاروں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ملک بدر نہیں کریں گے تاہم ہمیں دوسرے ممالک سے مدد کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے، نئے آنے والوں میں سے صرف 59,033 پاکستان سے باہر آباد ہوئے ہیں، جب کہ 42,068 مغربی ممالک جانے کے منتظر ہیں۔ باقی سیاسی پناہ کے لیے کسی بھی ملک کو قائل کرنے میں ناکام رہے ہیں، اور غیر قانونی طور پر پاکستان میں قیام پذیر ہیں۔ پاکستان آج تاریخ کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں غیر دستاویزی افراد کو جگہ دے کر ہم اپنی قومی سلامتی پر مزید سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ ہمارا حتمی مقصد ایک محفوظ، زیادہ پرامن اور خوشحال پاکستان کی تعمیر ہے جس سے ہمارے اپنے لوگوں، خطے اور وسیع تر دنیا کے لیے فوائد وابستہ ہوں۔