مسنگ پرسنز کا المیہ
13 January 2024
جنگ
لوگ سمجھتے ہیں کہ مسنگ پرسنز کا مسئلہ صرف بلوچستان تک محدود ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ خیبر پختونخوا (بشمول سابقہ فاٹا) کے مسنگ پرسنز کی تعداد بلوچستان کے مسنگ پرسنز سے بہت زیادہ ہے لیکن چونکہ وہ مذہبی لوگ تھے یا ٹی ٹی پی سے متعلق تھے اس لئے انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں ان کیلئے آواز نہیں اٹھاتیں حالانکہ انسان انسان ہے اور سب کے بنیادی حقوق ایک جیسے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ مسنگ پرسنز کے ایشو میں ریاست اور مسنگ پرسنز کیلئے آواز اٹھانے والے دونوں فریقوں کے موقف میں کچھ وزن بھی ہے اور کچھ حوالوں سے دونوں فریقوں کا موقف مبالغے یا زیادتی پر مبنی بھی ہے ۔ مثلاً ریاست مسنگ پرسنز کے وجود سے یکسر انکاری ہے ۔ وہ کہتی ہے کہ بہت سارے لوگ ایسے ہیں کہ افغانستان چلے گئے ہیں یا پھر مختلف معرکوں میں مرگئے ہیں لیکن ان لوگوں کو بھی مسنگ پرسنز کے کھاتے میں ڈالا جارہا ہے ۔
مسنگ پرسنز کیلئے آواز اٹھانے والی تنظیمیں کا یہ موقف بالکل درست ہے کہ اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے لیکن بدقسمتی سے ان تنظیموں نے جو بعض نعرے اپنالئے ہیں ، اس کی وجہ سے ریاست انہیں مظلوم کی بجائے حریف سمجھنے لگتی ہے ۔ اسی طرح یہ تنظیمیں صرف مسنگ پرسنز کی بات تو کرتی ہیں لیکن بلوچ عسکریت پسندوں کی مذمت نہیں کرتیں جن کی وجہ سے ریاست کو یہ گمان ہوتا ہے کہ ان کی مہم بھی عسکریت پسندوں کے مشن کا تسلسل ہے۔
میرے نزدیک مسنگ پرسنز کا مسئلہ کبھی مرکزی سطح پر حل نہیں ہوسکتا کیونکہ اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو وزیرستان یا تربت کے زمینی حقائق کا کوئی علم نہیں ہوتا ۔ اس لئے ضروری ہے کہ بلوچستان ، پختونخوا اور کراچی میں ضلعی سطح پر کمیشن بنائے جائیں ۔ ڈپٹی کمشنر اس کا سربراہ ہو ۔ تمام ایجنسیوں کے نمائندے اس کے ممبر ہوں ۔ مسنگ پرسنز کیلئے آواز اٹھانے والی تنظیموں کے نمائندے بھی اس کے ممبر ہوں ۔ اس کا ہر ہفتے اجلاس منعقد ہو۔