مہاجرین کی واپسی
ایک رپورٹ کے مطابق یورپ میں پناہ گزینوں کیلئے بڑی تعداد میں ’’بند کنٹرول شدہ رسائی مراکز‘‘بنائے گئے ہیں ۔جہاںزندگی تلخ ترین ہے۔وہ وہاں قیدیوں کی طرح رہ رہے ہیں ۔انہیں وہاں نہ تو مکمل بنیادی ضروریات ِ زندگی میسر ہیں نہ ہی مکمل تحفظ ۔ عملے کی کمی سے لے کر پناہ کے طریقہ کار میں تاخیرتک بچوں پر اثر انداز ہونے والے جنسی اور دیگر تشدد کے واقعات کی اطلاعات کثرت کے ساتھ ملتی ہیں ۔پُرہجوم موریا کیمپ میں آگ لگنے کے بعد، ایتھنز اور برسلز نے پناہ اور ہجرت کے انتظام کے نظام میں اصلاحات کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر کچھ بھی نہیں کیا گیابلکہ جو پانچ نئے کیمپ بنائے گئے جنہیں ماڈل کیمپ قرار دیا گیا ۔انکے حالات بھی بہت برے ہیں ۔یورپ جیسے ترقی یافتہ خطے میں ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔اسی طرح بنگلہ دیش میں روہنگیامہاجرین کے ساتھ اس سے بھی برا سلوک کیا جارہا ہے۔میں اسکی بھی مذمت کرتا ہوں مگر اسکےساتھ ساتھ اس بات کے بھی خلاف ہوں کہ پورا ملک ہی انکے حوالے کردیا جائے۔
پاکستان دنیا کا وہ واحدملک ہے جہاں مہاجرین کے ساتھ حیرت انگیز سلوک کیا گیا اور اس وقت یہ صورتحال ہے کہ یہاںان کی بڑی بڑی کوٹھیاں ہیں،لمبے چوڑے بنگلے ہیں، اونچے اونچے پلازے ہیں بلکہ وہ سیاست میں بھی آئے ہوئے ہیں ،لیڈر بنے ہوئے ہیں۔کہتے ہیں مختلف ادوار میں پاکستان آنے والےمہاجرین کی رجسٹرڈ تعدادتقریباً پینتالیس لاکھ ہے جن میں سے ساڑھے سات لاکھ مہاجرین نےرجسٹریشن نہیں کرائی ۔ ان کی تلاش جاری ہے۔ انکے علاوہ غیر رجسٹرڈ مہاجرین کا کوئی شمار نہیں ۔بے شمار فیملیز ایسی ہیں جنہوں نے پاکستانی شناختی کارڈ بنوالئے ہیں۔ایک آدھ لڑکے یا لڑکی کی شادی کسی پاکستانی سے کرکے پوری فیملی پاکستانی بن جاتی رہی ہے۔یہ صرف افغانی ہی نہیں، ان میں بنگالی ، برمی ،وسطی ایشیائی ،مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے باشندے بھی شامل ہیں ۔اب پاکستان نےانہیں واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا تودنیا چیخ اٹھی ہے۔ دنیا یہ نہیں دیکھتی کہ ان مہاجرین کی وجہ سے ہمارا کیا کیا نقصان ہوا ۔یہ کلاشن کوف کلچر انہی کاعطا کردہ ہے۔معاشرے میں یہ جو تشدد کی وبا پھوٹی،انہی سے پھوٹی ہے۔ انتہاپسندی ان سے پہلے ہمارے معاشرہ کا حصہ نہیں تھی ۔دہشت گردی کے واقعات میں ستر اسی فیصدیہی لوگ ملوث ہوتے ہیں ۔پاکستان میں دہشت گردی میں جو ہزاروں شہید ہوئے ہیں ۔میں انہی کو ان کا ذمہ دار ٹھہراتا ہوں۔جنوری 2023 سے اب تک ملک کے مختلف حصوں میں 24 خود کش حملے ہوئے جن میں سے 14میں افغان شہری ملوث پائے گئے۔جنوری 2022 تک پاکستان نے شمالی سرحدوں کے 94 فیصد حصے پر باڑ لگا دی تھی لیکن طالبان کی حکومت بننے کے بعد سے اس باڑ کو کئی جگہ سے نشانہ بنایا گیا اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر کئی بار حملے بھی ہوئے۔خاص طور پر دہشت گردباڑ توڑ کر داخل ہوجاتے ہیں۔میری حکومت سے درخواست ہے باقی جگہ پر بھی فوری طور پر باڑ لگائی جائے اور اسے مضبوط ترکیا جائے ۔مہاجرین کی واپسی کی ڈیڈ لائن اگلے ایک دودنوں میں ختم ہونے والی ہے ۔ جو مہاجرین نہیں جاتے ۔حکومت کو چاہئے کہ فوری طور پرانہیں حراست میں لے کر کیمپوں میں منتقل کر دے اور انہیں خودان کے ملک روانہ کرے۔یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ۔حکومت کا یہ فیصلہ بھی خوش آئندہے کہ کوئی مہاجرپچاس ہزار سے زیادہ رقم اپنے ساتھ لے کر نہیں جا سکتا ۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو ان کے ساتھ اربوں روپے پاکستان سے ڈالروں کی شکل میں نکل جائیں گے۔میرے خیال میں واپس جانے والے مہاجرین کے سامان کی بھی پوری تلاشی لی جائے ۔افواج پاکستان کومہاجرین کی نقل و حرکت کی پوری طرح نگرانی کرنی چاہئے ۔پاکستانیوں کو بھی چاہئے کہ جہاں جہاں مہاجرین موجود ہیں ان کی حکومت کو نشان دہی کریں ۔ یہ ان کا قومی فرض ہے۔سنا ہے کہ ان میںسے اگر کچھ ایسے لوگ ہیں جن کے بارے میں اقوام متحدہ والے کہتے ہیں کہ ان کی واپسی سے ان کی زندگیوں کو خطرہ ہو سکتا ہے شاید یہ وہ لوگ ہیں جو طالبان کی آمد کے بعدافغانستان سے ہجرت کرکے آئے ۔ٹھیک ہے وہ میرے خیال میں چند ہزار لوگ ہیں مگر اقوام متحدہ کو یہ بھی چاہئے کہ جن کیمپوں میں انہیں رکھا جائے اس کے اخراجات برداشت کرے۔کیونکہ پاکستان نے مہاجرین کے کسی بین الاقوامی معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہوئے۔
کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ انہیں واپس بھیجنے کی وجہ سے پاکستان کےافغانستان سے تعلقا ت بہت خراب ہو جائیں گے۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے ان کیلئے کیا نہیں کیا مگر ان کے اندر پاکستانیوں کیلئے جو زہر بھرا ہوا ہے وہ نکلتا ہی نہیں۔