پاکستان میں غزہ سے طلبہ کی آمد: ’جب لوگوں کو پتا چلتا ہے کہ ہم فلسطینی ہیں تو کوئی پیسے نہیں لیتا‘
عائشہ میر
Publishing date: 20 November 2024
Published in: BBC Urdu
’میری ام٘ی نے کہا کہ انھوں نے اپنی زندگی جی لی ہے، اب میری باری ہے۔ اس بات سے میرا دل بہت ٹوٹا، لیکن اور کوئی راستہ نہیں تھا۔‘
یہ الفاظ غزہ سے ایک سکالرشپ پروگرام کے تحت پاکستان میں اپنی میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے لیے آنے والی ندا صفی کے ہیں جو کچھ ماہ پہلے تک غزہ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بدتر ہوتے حالات میں زندگی گزار رہی تھیں۔
ندا کے ہمراہ ان کی سہیلی لاما بھی ہیں جو صرف کچھ عرصہ پہلے تک غزہ کے کالج میں ان کے ساتھ کلاس کے ذہین ترین طالبات میں شامل تھی لیکن پھر جنگ نے ان کا سب کچھ تباہ کر دیا۔
پاکستان کی وزارت خارجہ نے جولائی میں اعلان کیا تھا کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) 100 سے زیادہ فلسطینی طلبہ کو سکالرشپ فراہم کرے گی تاکہ وہ پاکستان میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔
غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے دوران یہ اقدام ’ڈاکٹرز آف رحمان، گلوبل ریلیف ٹرسٹ‘ اور غیر سرکاری تنظیم ’الخدمت فاؤنڈیشن‘ کے اشتراک سے کیا گیا ہے۔
23 اکتوبر کو پاکستانی میڈیکل یونیورسٹیوں اور کالجوں میں زیر تعلیم ان فلسطینی طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا تھا کہ ’غزہ کے ذہین طلبہ سے خطاب کرنا اعزاز کی بات ہے۔ پاکستان ان کا دوسرا گھر ہے، کھلے دل سے ان کو خوش آمدید کہتے ہیں۔‘
وزیر اعظم شہباز شریف کا اس موقع پر مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان آپ کی میزبانی کرے گا۔ میرا یقین کریں یہ احسان نہیں ہے، یہ ایک ایسی ذمہ داری ہے جسے ہمیں بہت پہلے ادا کر دینا چاہیے تھا۔‘
خیال رہے کہ غزہ جنگ کا آغاز کے بعد سے اسرائیلی کارروائیوں میں اب تک 43 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں طلبہ، بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے۔