کیا ملٹری کورٹس کے خِلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ درست ہے؟
Hira Zafar
23 November 2023
فوجی عدالتوں کے خلاف سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو مختلف مکاتب فکر، خاص طور پر میڈیا میں شدید تنقید کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔قانونی پہلوؤں سے قطع نظر اس فیصلے کو ملکی سیکیورٹی چیلینجز کے تناظر میں پرکھا جانا بہت ضروری ہے۔
موجودہ حالات میں پاکستان خطے کے ماحول، اور علاقائی و بین الاقوامی جیو اسٹریٹجیک عوامل کی بدولت بہت پچیدہ حالات سے نبردآزما ہے۔ دشمن قوتیں پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں اور مسلسل روایتی و غیر روایتی حربوں کے ذریعے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔
ان حالات کے پیش نظر، عوامی حمایت حاصل کرنا، معاشی وسائل کی بہتری پر توجہ مرکوز کرنا اور قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے احسن اقدامات کے نفاذ کے لیے سازگار قانونی ماحول کو فروغ دینا ناگزیر ہو جاتا ہے۔
فوجی عدالتوں کے خلاف سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے دُور رَس اثرات ہیں۔ خاص طور پر پاکستان کی سیکیورٹی کے لیے سنگین خطرات پیدا کرنے والے عناصر یعنی دہشت گرد تنظیموں اور ان کے بین الاقوامی حامیوں کی طرف سے اس فیصلے کو بہت سراہا جا رہا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری قوم، فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی انتھک کوششوں اور قربانیوں کے باوجود کمزور قانونی نظام نے ان دہشت گردوں کو فرار کا راستہ فراہم کیا ہے جس سے وہ اپنی مذموم سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ کے دوران یہ بات عیاں ہو گئی کہ گرفتار کیے گئے کچھ انتہائی خطرناک دہشت گردوں کو اکثر سول عدالتوں کے ذریعے چھوڑ دیا گیا۔ بدقسمتی سے سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے دہشتگرد تنظیموں اور ان کے سہولت کاروں کو جو ریلیف ملا ہے اس نےدہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں رہنے والے معصوم شہریوں کے لیے ایک پریشان کن صورتحال پیدا کر دی ہے۔ فوجی عدالتوں کے خلاف اس فیصلے نے ان کی تکالیف کو کم کرنے کی بجائے ان کے خوف اور مایوسی کو مزید بڑھا دیا ہے۔
مزید برآں ، انتہائی مہلک دہشتگرد تنظم، تحریک طالبان پاکستان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد خوشی واطمینان اظہار کیا جسے کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
یہاں اس بات کا تذکرہ بھی بہت ضروری ہے کہ مسلح افواج اور متعلقہ عسکری اداروں میں بڑی تعداد میں سویلینز کام کر رہے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی شخص قومی سلامتی پر سمجھوتہ کرنے کے عمل میں ملوث پایا گیا تو کیا کمزور اور ناقص سول عدالتوں کی وجہ سے اس کا کوئی حساب نہیں ہو گا؟ ایسے افراد دشمن غیر ملکی ایجنسیوں کا آسان شکار بھی بن جائیں گے۔
کیا فوجی عدالتوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے سے ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث افراد میں سزا کا ڈر کم نہیں ہو جائے گا؟
مزید برآں، حالیہ دنوں میں، بعض ریٹائرڈ فوجی اہلکار اپنے ذاتی، مالی اور سیاسی مقاصد کی وجہ سے فوج مخالف سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ کیا سپریم کورٹ کا فوجی عدالتوں کے خلاف فیصلہ ایسے رجحانات کی حوصلہ افزائی نہیں کر رہا؟ کیونکہ ماضی میں فوج سے منسلک ہونے کی وجہ سے ان کے بے بنیاد پروپیگنڈے کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ کیا ایسے جھوٹے پروپیگنڈے سے عسکری ادارے کمزور نہیں ہوں گے؟
سول اور فوجی عدالتوں کے درمیان متعصبانہ تقابلی تجزیے کے ذریعے کچھ نام نہاد دانشور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائلز کا خاتمہ دراصل سویلین بالادستی ہے۔ وہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ فوجی عدالتیں آئین پر سختی سے عملدرآمد کرتی ہیں اور ملزمان کو فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کا حق حاصل ہے۔
ان حقائق کے باوجود، ان نام نہاد اور جھوٹے قانونی ماہرین اور دانشوروں کی جانب سے جھوٹا پروپیگنڈہ پاکستانی فوج اور فوجی عدالتوں کے لیے ان کے تعصب اور نفرت کے علاوہ کچھ نہیں۔
بین الاقوامی رینکنگ میں عدالتی اہلیت کے مطابق پاکستانی فوجی عدالتوں کا ساتواں نمبر ہے جو ان کی اہلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے برعکس ناقص کارکردگی کی وجہ سے ہماری سول عدالتیں دنیا بھر میں 136 ویں نمبر پر آتی ہیں۔
کیا قومی سلامتی سے متعلق انتہائی اہم مقدمات کو مؤثر فوجی عدالتوں کے بجائے کمزور اور ناقص سول عدالتوں میں چلانا دانشمندی ہے؟
ان تمام عوامل پر غور کیا جائے تو یہ نتیجہ روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ملکی سلامتی کے لیے ایک اہم خطرہ ہے۔ اگرچہ اس سے چند افراد کو فائدہ تو ضرور ہو سکتا ہے، لیکن قومی سلامتی اور ملکی تحفظ کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔