ہمدردی یا قومی مفاد
دنیا میں اکثر اوقات ہمدردی اور نیک دلی کے جذبات کہیں پیچھے چھوڑ دیئے جاتے ہیں لیکن پا کستا ن نے ہمیشہ مہاجرین کو گلے لگانے کے سلسلے میں فقید المثال ہمدردی اور نیک دلی کا ثبوت دیا۔ہماری قوم مہمان نوازی کے لئے جانی جاتی ہے۔ افغان پناہ گزینوں کے لئے ہمارا فیصلہ مجبوری ہے جس کے پیچھے، معاشی ، دفاعی اور وسائل کی کم یابی کی مجبوریاں ہیں، بالخصوص ان لوگوں کے لئے جو یہاں غیر قانونی طور پر مقیم ہوں۔ پاکستان کے لئے چوالیس لاکھ مہاجرین کو مہمان بنائے رکھنا نا ممکن ہے بالخصوص ا±س وقت جب ہمیں اپنے دفاع اور تعمیر و ترقی کے چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ماضی میں پاکستان نے ہمیشہ ایسے لوگوں کو پناہ دی جو مجبور یا ضرورت مند تھے۔ اپنے ملک میں تشدد، بد امنی اور جنگوں کا سامنا کرنے والے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو ہم نے پناہ دی۔ یہ عمل پاکستان کی طرف سے ضرورت کے وقت اپنے پڑوسیوں کی مدد کرنے کا آئینہ دار ہے۔ پاکستان کا افغان پناہ گزینوں کی پڑتال کرنے اور غیر قانونی پناہ گزینوں کو وطن واپس بھیجنے کا حالیہ فیصلہ مہمان نوازی کے فقدان کی وجہ سے نہیں بلکہ زمینی حقائق کی وجہ سے ہے۔
بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آباد کاری بالخصوص کسی قانونی حیثیت یا دستاویز کے بغیر رہنے والے مہاجرین کی آباد کاری نے غیر قانونی سرگرمیوں کے امکانات کو فروغ دیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے دفاع کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں اور معاشی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔افغان مہاجرین منشیات فروشی اور اسلحہ فروشی کے مرتکب پائے گئے ہیں جس کی وجہ سے پورے معاشرے کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا ہے۔ وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق، عصمت دری، ڈاکہ زنی، قبضہ گیری، سمگلنگ حتیٰ کہ جنگجو اور دہشت گرد گروہوں کے ساتھ تعاون میں افغان پناہ گزینوں کے ملوث پائے جانے کے ناقابل تردید ثواہد ملے ہیں۔ان پناہ گزینوں کی وجہ سے پاکستانی معیشت پر پڑنے والے اثرات بھی کچھ کم نہیں کیونکہ ان لوگو ں نے اپنے کاروبار چمکانے کے لئے کالے دھن اور ٹیکس چوری جیسے غیر قانونی ذرائع استعمال کیئے ہیں۔
وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق بہت سے افغان مہاجر پاکستان مخالف اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں جن میں پاک فوج پر حملے بھی شامل ہیں۔
افغان پناہ گزینوں کی یہاں موجودگی نے پاکستان کے امن و امان اور دفاعی ماحول پر بھی اپنے منفی اثرات مرتب کیئے ہیں جن میں تشدد پسندانہ اور دہشت گردانہ سرگرمیاں شامل ہیں، مذکورہ بالا رپورٹ کے مطابق حالیہ برس جنوری سے لے کر اب تک ہونے والے 22خود کش حملوں میں سے چودہ حملوں میں افغان شہری ملوث پائے گئے ہیں۔ وزیر داخلہ جو دہشت گردی کی روک تھام کے سربراہ بھی ہیں کہ مطابق صوبہ بلوچستان اور صوبہ خیبر پختون خواہ میں سیکورٹی فورسز پر ہونے ہونے والے حملوں میں بھی افغان شہری ملوث تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ڑوب، مستونگ اور ہنگو میں ہونے والے دہشت گردی کے حملوں کے پیچھے بھی افغان شہری ہی تھے۔
گزشتہ کچھ دہائیوں سے پاکستان میں فروغ پانے والے منشیات فروشی کے کاروبارپر نظر ڈالنے سے بھی افغان پناہ گزینوں کی ملک میں موجودگی اور ا±ن کے عمل دخل پر سوال اٹھتا ہے۔
2012-2013میں یو این او ڈی سی نے وزارت انسداد منشیات، امریکی محکمے بیورو آف انٹرنیشنل نارکوٹکس اینڈ لا انفورسمنٹ افیئرز (آئی این ایل) اور دوسرے قومی ذمہ داروں کے ساتھ مل کر پاکستان میں منشیات کے استعمال اور اس کے پھیلاو کا اندازہ لگانے کے لئے سروے کروایا تھا۔ مذکورہ سروے کے مطابق بالغ مردوں کی آبادی کا 9 فیصد جبکہ بالغ خواتین کی آبادی کا 2 اعشاریہ 9 فیصد، جو کہ کل آبادی میں سے97 لاکھ نفوس بنتے ہیں، نے سروے والے برس تمباکو یا شراب کے علاوہ کسی نہ کسی نشہ آور شے کا استعمال کیا تھا جبکہ ہر روز قریب 700 افراد نشے سے جڑی کسی نہ کسی بیماری سے لقمہ اجل بنتے تھے۔ رپورٹ کے مطابق نشہ کرنے والے ان افراد کی اکثریت کا تعلق صوبہ بلوچستان اور صوبہ خیبر پختون خواہ سے تھا اور یہی علاقے افغان مہاجرین کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔پاکستان دنیا میں کوئی انوکھا ملک نہیں ہے جو مہاجرین کو قانون شکنی کی اجازت دے اور اس کے بھیانک نتائج برآمد نہ ہوں۔ غیر قانونی پناہ گزینوں کے انخلا کا فیصلہ عالمی رجحانات کے مطابق ہے۔
یو این ایچ آر سی کے مطابق ایران نے 2023 عیسوی میں 710000 مہاجرین کو وطن واپس بھیجا ہے جو پچھلے برس نکالے گئے مہاجرین کی تعداد 150فیصد زیادہ ہے۔ ترکیہ نے جو مہاجرین 2022 عیسوی کے پہل آٓٹھ ماہ میں اپنے ملک سے نکالے ہیں ان کی تعداد 2021 کے اسی دورانیے میں نکالے گئے مہاجرین کی تعداد سے 150فیصد زیادہ ہے جو کہ 22998بنتی ہے۔ حتیٰ کہ جرمن حکومت بھی اس دباو میں ہے2021 میں مہاجرین کے انخلا کو روکے گئے عمل کو دوبارہ شروع کرے اور ایسے مہاجرین کو ملک بدر کرے جو قانون شکنی یا امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنے میں ملوث پائے گئے ہوں ۔
ایک طرف تو پاکستان کی افغان مہاجرین کو پناہ دینے کی کوششیں قابل تعریف رہی ہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہےکہ پاکستان کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی ہے۔ قوم کو معاشی بحران اور امن و امان کی مخدوش صورت حال کا بوجھ اٹھانا پڑا ہے۔ یہ فیصلہ کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن بغیر دستاویزات کے اور غیر قانونی طور پر مقیم پناہ گزینوں کو وطن واپس بھیجنا ملک کی خود مختاری اور دفاع کے لئے ضروری ہے۔پاکستان نے اپنے حیثیت اور صلاحیت سے بڑھ کر مشکل میں پھنسے اپنے افغان بھائیوں کی مدد کی ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ افغان شہری اپنے وطن کو واپس جائیں۔ افغانستان کو اپنے پاوں پر کھڑا ہونا چاہیئے اور ایسے ساز گار حالات پیدا کرنے چاہیئں کہ اس کے شہری اپنی زندگیوں کی تعمیر اور اپنے ملک کی ترقی میں حصہ ڈال سکیں۔پاکستان کی فیاضی اور قربانی کی قدر کی جانی چاہیئے لیکن افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے لئے مربوط بین الاقوامی کوششوں کی بھی ضرورت ہے تاکہ ایک طرف تو انسانی ہمدردی کے تقاضے پورے کئے جائیں اور دوسری طرف دفاع اور امن و امان کو یقینی بنایا جا سکے۔افواج پاکستان اس مشکل صورت حال سے نمٹنے کے لئے مستعد اور فعال ہیں اور فوج کی قربانیاں ملک کے دفاع کے لئے ا±ن کے عظم و استقلال کی آئینہ دار ہیں۔